دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ پارٹیوں کے عرش سے فرش پر آ گرنے کی داستان جتنی حیران کن ہے اتنی ہی پریشان کن بھی۔ ان پارٹیوں کا اس طرح نحیف و نزار ہونا سیکولر جمہوری نظام کیلئے بے حد خطرناک ہے۔
EPAPER
Updated: March 12, 2025, 1:51 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ پارٹیوں کے عرش سے فرش پر آ گرنے کی داستان جتنی حیران کن ہے اتنی ہی پریشان کن بھی۔ ان پارٹیوں کا اس طرح نحیف و نزار ہونا سیکولر جمہوری نظام کیلئے بے حد خطرناک ہے۔
مغربی بنگال میں ٹھیک ایک سال بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سی پی آئی (ایم)نے فروری کے اواخر میں ہوگلی ضلع کے ڈانکونی شہر میں چار روزہ ریاستی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں لیڈروں نے پارٹی کی بنیادی کمزوریوں مثلاً مقبولیت میں بھاری کمی، کاڈرز میں پھیلی مایوسی اور انتخابی حکمت عملی کی مسلسل ناکامیوں پر غور و خوض کیا ہوگا۔پارٹی لیڈروں نے صوبے میں پارٹی کی کھوئی ہوئی زمین واپس پانے کے لئے کوئی لائحہ عمل بھی تیار کیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا؟ کیا ۲۰۲۶ء کے اسمبلی انتخابات میں سی پی آئی (ایم)کوئی تیر مارسکے گی؟لگتا تو نہیں ہے۔ سی پی آئی(ایم) کی سربراہی میں آٹھ کمیونسٹ پارٹیوں کے بایاں محاذ نے لگاتار ۳۴ ؍برسوں تک مغربی بنگال میں حکومت کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ لیکن بایاں محاذ کا ماضی جتنا درخشاں تھا اس کا حال اور مستقبل اتنا ہی تاریک ہیں ۔ ۲۰۱۱ء میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے ہاتھوں اقتدار گنوانے کے بعدسے سی پی آئی(ایم) اور اس کی حلیف جماعتیں مسلسل روبہ زوال ہیں ۔چودہ برسوں کے بعد بھی سی پی آئی (ایم) کے سیاسی بن باس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔
یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ بنگال کی سیاست میں بایاں محاذمسلسل بے وقعتی کا شکار ہورہا ہے۔ آج تقریباً تین سو اراکین والی صوبائی اسمبلی میں اس کا ایک بھی نمائندہ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ لوک سبھا میں بنگال سے محاذ کا کوئی رکن موجود ہے۔ ۲۰۲۱ء کے بنگال کے اسمبلی انتخابات میں ۲۹۴؍ میں سے بایاں محاذ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکا تھا۔کیا کوئی یقین کرے گا کہ محض ۱۵؍ سال قبل یعنی ۲۰۰۶ء میں اسی محاذ نے ۲۳۵؍سیٹیں جیتی تھیں ؟ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ پارٹیوں کے عرش سے فرش پر آ گرنے کی داستان جتنی حیران کن ہے اتنی ہی پریشان کن بھی ہے کیونکہ بائیں بازو کی طاقتوں کا اس طرح نحیف و نزار ہونا ہندوستان کے سیکولر جمہوری نظام کیلئے بے حد خطرناک ہے۔ ملک میں جس تیزی سے فرقہ وارانہ عصیبت، مذہبی منافرت اور سماجی اور طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے ایسے وقت میں بائیں بازو کی طاقتوں کامزید حاشئے پر چلے جانادبے کچلے شہریوں ، اقلیتوں اور دلتوں کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔
گزشتہ چھ سالوں میں بایاں محاذ لگاتار تین بار زیروپر آؤٹ ہوچکا ہے۔ ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا اور ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں محاذ کو ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی جو یقیناً ایک نہایت شرمناک ریکارڈ ہے۔ ۲۰۱۱ء میں اقتدار گنوانے کے باوجود بایاں محاذ کا ووٹ شیئر تقریباً ۴۰؍فیصد تھاجو محض دس برسوں میں گھٹ کر ۶؍فیصد سے بھی کم رہ گیا۔ اس شرمناک تنزلی کے سدباب کے لئے پچھلے لوک سبھا انتخابات سے قبل سی پی آئی(ایم) نے دو ہزار کلو میٹر کی ’’انصاف یاترا‘‘ نکالی جسے اضلاع میں اچھی پذیرائی ملی۔ بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں بڑی ریلی کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا۔ سی پی آئی (ایم) نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو امیدوار بناکر میدان میں اتارا۔ اتنے جتن کرنے کے بعد بھی جب لوک سبھا الیکشن کے نتائج کا اعلان ہو ا تو سی پی آئی (ایم) کا ایک نمائندہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی لئے مجھے شبہ ہے کہ پندرہ دن قبل ہوگلی میں ہوئی پارٹی کی ریاستی کانفرنس میں بنائے گئے روڈ میپ کا اگلے الیکشن پر کوئی اثر پڑے گا۔
یہ بات صحیح ہے کہ بنگال میں بایاں محاذ کے ۳۴؍ سالہ راج پاٹ کو چودہ سال قبل ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے ختم کیا تھا لیکن اس کی موجودہ قابل رحم حالت کیلئے ترنمول کانگریس نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی ذمہ دار ہے۔بایاں محاذ کے ۱۹۷۷ء سے ۲۰۱۱ء تک کے دور اقتدار میں بی جے پی کسی اسمبلی الیکشن میں اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی تھی۔ ۲۰۱۱ء میں بی جے پی کا ووٹ شیئر صرف ۴؍ فیصد تھا۔ جیسے جیسے بی جے پی کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں ویسے ویسے صوبے کی سیاست پر سی پی آئی (ایم) کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی۔ کیرل کے کنور میں ہوئی سی پی آئی (ایم) کی پارٹی کانگریس میں جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے جو تنظیمی رپورٹ پیش کی تھی اس میں اس افسوسناک صورتحال کا اعتراف کیا گیا کہ بنگال اور تری پورہ میں ہزاروں کاڈرز پارٹی چھوڑ کر چلے گئے اور لاکھوں گھر بیٹھ گئے ہیں ۔ اب تو صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب بنگال میں بی جے پی کے کاڈرز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی ترنمول کانگریس سے اس کی زمین نہیں چھین سکی ہے۔ اس نے سی پی آئی (ایم) اور اس کی حلیف جماعتوں کے ووٹ بینک میں بھاری سیندھ لگا کر اپنا ووٹ شیئربڑھایا ہے۔ سی پی آئی (ایم) کا ووٹ شیئر تو پھر بھی پانچ سے چھ فی صد کے درمیان ہے لیکن سی پی آئی، فارورڈ بلاک اور آر ایس پی جیسی اتحادی جماعتوں کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے۔ ان میں کسی پارٹی کا ووٹ شیئر نصف فی صد تو کسی کا اس سے بھی کم رہ گیا ہے۔ بنگال میں لفٹ فرنٹ کے سابقہ ووٹروں کی بہت بڑی تعداد پچھلے دس برسوں سے بی جے پی کو ووٹ دینے لگی ہے۔اس کی شروعات ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے ہوئی جب وہ لوگ جو کئی دہائیوں سے سی پی آئی (ایم) کے حمائتی تھے انہوں نے ’’ایبار رام، پارے بام‘‘ (اس بار رام، بعد میں بایاں محاذ)کا نعرہ لگاکر بی جے پی کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈال دیئے جس کے نتیجے میں بھگوا پارٹی نے ۱۸؍ لوک سبھاسیٹیں ہتھیالی تھیں ۔خود یچوری نے اپنی پارٹی کے ووٹروں کی اس بے وفائی کا اعتراف کیا تھا۔
پہلے کلکتہ سمیت بنگال کے کونے کونے میں سرخ پرچم لہراتے تھے۔ اب سرخ پرچم کی جگہ بھگوا جھنڈوں نے لے لی ہے۔لفٹ فرنٹ کے ووٹوں کی بھاجپا کو منتقلی نے بنگال کی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے سیاسی محاذ آرائی بایاں محاذ اور کانگریس اور ۱۹۹۸ء سے بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس کے درمیان ہوا کرتی تھی اور مقابلہ دوطرفہ تھاجس میں تیسرے فریق کے لئے جگہ نہیں تھی۔ مقابلہ اب بھی دو طرفہ ہی ہے صرف ترنمول کانگریس کے مدمقابل اب بایاں محاذ کی بجائے بی جے پی ہے۔ سی پی آئی (ایم) کو صوبے میں اپنی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ترنمول کانگریس کی بجائے پہلے بی جے پی کو اپنے راستے سے ہٹانا ہوگا جو ایک مشکل چیلنج ہے۔
پس نوشت: سی پی آئی (ایم) کی حالیہ ریاستی کانفرنس میں اتفاق رائے سے محمد سلیم کو دوبارہ پارٹی کا ریاستی سکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ انہیں ۲۰۲۲ء میں پہلی بار اس عہدہ پر فائز کیا گیا تھا۔ بنگال میں سی پی آئی (ایم) کے طویل اقتدار کے پیچھے ایک اہم وجہ تھی مسلم ووٹروں کی حمایت۔۲۷؍فیصد مسلم آبادی کی اکثریت کئی دہائیوں تک سی پی آئی (ایم) اور بایاں محاذ کو ووٹ دیتی رہی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ سی پی آئی (ایم) نے بنگال میں جس وقت ایک مسلم لیڈر کو پارٹی کا سربراہ بنایا ہے اس وقت مسلم ووٹروں نے پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔